’آخر کب تماشا ختم ہوگا؟‘
پاکستان میں تھیٹر کے شعبے میں صورتحال مجموعی طور پر کبھی بھی تسلی بخش نہیں رہی
البتہ ایسے کم ہی ادوار گزرے ہیں کہ جب تھیٹر کے منچ کی رونقیں بحال ہوئیں لیکن یہ مختصر مدت تک ہی ہوسکا۔
قیامِ پاکستان کے بعد تھیٹر کے شعبے کو انفرادی حیثیت سے فروغ ملا، اور پھر کچھ تھیٹر گروپس بھی منظرِعام پر آئے۔
حکومتی سرپرستی میں ’نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس‘ (ناپا) جیسا ادارہ بھی وجود میں آیا لیکن تھیٹر کا اپنا وجود پنپ نہ سکا اور پاکستان میں تھیٹر کی مجموعی صورتحال مخدوش ہی رہی۔
ماضی قریب میں انگریزی تھیٹر نے میلہ لوٹا مگر وہ موسم بھی جلد رخصت ہوا۔ پھرمعروف ڈرامانگار انور مقصود کے کچھ ناٹکوں کو بھی توجہ اور مقبولیت ملی لیکن ان کے لکھے ہوئے آخری ڈرامے ’ساڑھے چودہ اگست‘ کو دیکھتے وقت محسوس ہوا کہ ان کی تھیٹر والی مقبولیت کا بھی اب چل چلاؤ ہے۔
نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس میں تھیٹر پڑھایا بھی جاتا ہے اور تھیٹر فیسٹولز بھی منعقد کیے جاتے ہیں۔ دو دہائیوں سے قائم اس ادارے نے مجموعی طور پر ویسی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا جو دستیاب وسائل میں اسے کرنا چاہیے تھا۔ لہٰذا ان سے کچھ بعید نہیں پھر وہ ایک خاص طور کے مغربی اثرات سے متاثرہ تھیٹر سے باہر نہیں نکل پارہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی سرگرمیاں بھی محدود رہیں اور اب تو عرصے سے وہاں راوی چین لکھتا ہے۔ آرٹس کونسل آف پاکستان، کراچی کی تھیٹر اکیڈمی بھی فعال ہے اور اس ادارے کے فورم سے تھیٹر فیسٹیولز بھی ہوتے ہیں مگر اس کے باوجود تھیٹر کے استحکام کے لیے یہ سرگرمیاں ناکافی ہیں اور جو معیار حقیقی تھیٹر کوقائم کرنے کے لیے درکار ہے وہ ابھی بہت کم ہے۔
پاکستان میں تھیٹر کے فروغ کی مجموعی صورتحال
اس تمام صورتحال کے باوجود کچھ سرپھرے تھیٹر کے عشق میں مبتلا ہوکر اسے اپناتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اداکاری کی بنیاد میں تھیٹر اور ریڈیو کا لہو پسینہ شامل ہوتا ہے، اسی لیے جو فنکار اس راستے سے ہوکر اپنی منزل پاتے ہیں ان کا فن بھی کندن بن جاتا ہے۔ اب چاہے وہ اداکار ہوں، فلم ساز ہوں، ڈراما نویس ہوں یا کسی اور شعبے سے وابستہ ہوں، وہ تھیٹر کی بدولت اداکاری کے منظرنامے پر چھائے رہتے ہیں۔ پڑوسی ملک ہندوستان میں نصیر الدین شاہ، عرفان خان، اوم پوری، منوج باچپائی اور پنکج ترپاٹھی تک ہمیں ان اداکاروں کی ایک طویل فہرست دیکھنے کو ملتی ہے۔
ہمارے ہاں اس خلا کو ریڈیو پاکستان نے پُر کیا لیکن اس کے باوجود کچھ اچھے اداکار تھیٹر کے ذریعے ہمیں ملے جن میں سب سے روشن مثال ضیا محی الدین کی ہے۔ انہوں نے اس فن سے گیان حاصل کرتے ہوئے بین الاقوامی سطح پر شہرت حاصل کی۔ اب یہ ایک الگ بات ہے کہ انہوں نے ناپا میں جن طلبہ کو پروان چڑھایا وہ تھیٹر کوپروان نہ چڑھا سکے اور انہیں اپنے گھر کا کچن چلانے کے لیے ٹیلی وژن اور فلم نگری کاسہارا لینا پڑا۔ یہ زمینی حقیقت بھی ہے جس سے انکار ممکن نہیں ہے لیکن اس فن کو پروان چڑھانے کی ذمہ داری جن کے کاندھوں پر تھی وہ اس ذمہ داری کو ادا کرنے میں ناکام دکھائی دیے۔
تھیٹر کے منچ پر ایک تازہ ہوا کا جھونکا
گزشتہ دنوں آرٹس کونسل آف پاکستان، کراچی میں تھیٹر کا ایک کھیل ’آخر کب تماشا ختم ہوگا؟‘ پیش کیا گیا جس کے ہدایت کار وجیہہ وارثی ہیں۔ وہ ایک عمدہ شاعر اور ادیب ہیں، اس کے علاوہ وہ بچوں کے ادب کے لیے بھی کافی سرگرم ہیں۔
اس کھیل کے ایگزیکٹو پروڈیوسر ندیم حق ہیں جبکہ اس کھیل کو معین قریشی نے لکھا ہے۔ معین قریشی پاکستان میں ایڈورٹائزنگ کے شعبے سے وابستہ معروف شخصیت ہیں جن کے قلم سے نکلی ہوئی کئی سرخیاں اور جملے زبان زدعام رہے ہیں۔ ڈرامانگاری کے فن میں بھی وہ یکتا ہیں۔ انہوں نے اس کھیل کو تمثیلی انداز میں لکھتے ہوئے پاکستان کے موجودہ سماج اور تلخ حقائق کی عکاسی کی ہے۔
اس ناٹک کے دعوت نامے پر پاکستانی تھیٹر کی تاریخ کے نمایاں ناموں کا اندراج کرتے ہوئے، اس کھیل کی صورت میں ان ناموں کو خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے۔ اس فہرست میں خواجہ معین الدین، کمال احمد رضوی، علی احمد، اسلم اظہر، مدیحہ گوہر، منصور سعید، مصدق سانول، اسمٰعیل یوسف، یاسمین اسمٰعیل، ضیا محی الدین اورعمران اسلم شامل ہیں۔
مذکورہ ڈرامے کا مرکزی خیال اور تھیم
ڈرامے کے پلاٹ میں جس جگہ پر یہ ناٹک کھیلتے دکھایا گیا ہے وہ لاہور کا شاہی بازار ہے جسے ہیرا منڈی بھی کہا جاتا ہے۔ دنیا میں ممنوع موضوعات میں سے چند کلیدی پہلوؤں کو منتخب کرکے اس کھیل میں کرداروں کی صورت میں پیش کیا گیا۔ اس کہانی کے ذریعے سماج کا بدنما چہرہ دکھایا گیا ہے جہاں منفی اور مثبت طاقتیں آپس میں دست وگریباں ہیں۔ اسی ماحول میں فنونِ لطیفہ کی آبیاری بھی ہوتی ہے، موسیقی اور رقص بھی زندگی کے خالی خاکوں میں رنگ بھرتے ہیں۔ احساسات، جذبات اور تفکرات کی آمیزش سے کہانی کا تانا بانا تخلیق کیا گیا ہے۔
اس کہانی کے کردار ہمارے معاشرے کے عام لیکن جانے پہچانے کردار ہیں جو پیشے کے لحاظ سے صحافی، مولوی، فوجی، طوائف اور دیگر ہیں۔ چائے والے سے لےکر پلاٹ بیچنے کے ماہرین تک، سب کو اس ناٹک میں تمثیلی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ پیشے اور ان سے جڑے ہوئے منفی اور مثبت جذبات کیسے انسان کی زندگی پر اثرانداز ہوتے ہیں، اس کیفیت کو نہایت احسن طریقے سے اس منچ پر پیش کیا گیا ہے۔
کہانی و کردار
اس ناٹک کا مرکزی کردار میڈم سیما ہے جو بہ ظاہر تو ایک طوائف ہے لیکن اس کا دل سچائی اور نیکی کے لیے دھڑکتا ہے۔ ایک کردار مولوی صاحب کا ہے، جو اس بدنام محلے کی مسجد میں بطور امام وارد ہوتے ہیں۔ صحافت، سیاست، عسکریت اور منافقت کی کئی شکلیں اس ناٹک میں نمودار ہوتی ہیں اور ڈرامانگار کے کاٹ دار جملے جہاں ایک طرف لطف دیتے ہیں تو دوسری طرف داخلی اذیت کا باعث بھی بنتے ہیں۔ معاشرتی ناہمواری اور ناانصافی پر مبنی سماج میں ہونے والی زیادتیوں کو کافی قریب سے دکھایا گیا ہے۔
معین قریشی الفاظ سے کھیلنے کے فن میں پرانے کھلاڑی ہیں اور اس کہانی میں بھی وہ خوب کھیلے ہیں۔ اس کھیل کو مربوط انداز سے پیش کرنے پر وجیہہ وارثی بھی مبارک باد کے مستحق ہیں جنہوں نے دیکھنے والوں کے لیے اس مشکل اور تمثیلی کہانی کو اس منچ پر ممکن کر دکھایا ہے۔ اس کے علاوہ بھی وہ غلام عباس کے افسانے آنندی کو ’زہرا کی گلی‘ کے نام سے لکھ چکے ہیں۔ منٹو کا افسانہ ’راحت جان‘ اب بھی دکھایا جارہا ہے، ان کے علاوہ ’گونگا درپن‘ اور بہت سے سماجی اور معاشرتی ڈرامے وہ قلم بند کرچکے ہیں۔
اداکاری و دیگر شعبہ جات
اداکاروں نے تمام مرکزی اور ذیلی کرداروں میں اپنے کام کو احسن انداز میں پیش کیا۔ اس تھیٹر میں طوائف، صحافی، مولوی، فوجی اور چائے والے کے کرداورں نے حاضرین کو اپنی گرفت میں لیے رکھا۔ کھیل کی ابتدا میں تحت اللفظ میں عارف باحلیم نے متاثرکُن آغاز فراہم کیا۔ مجموعی طور پر تمام اداکاروں نے اپنے کام سے انصاف کیا لیکن عارف حسن، سید اطہر رضا نقوی (اجو بھائی) فرخ دربار، فرحان اعوان، سپان غزل، شبانہ سحر، حماد غنی، اکبر خان، اظہار باچا خان اور شمیر راہی نے اپنی متاثرکُن اداکاری سے دل موہ لیے۔
دیگر ذیلی کرداروں میں وہاج وجیہ، حسن یار خان، عمران حسنی، حسن بابر، عبداللہ، کریم شیر علی، آصف الیاس، وسیم عزیز، نذیر عظمی اور جنید میمن نے بھی عمدہ اداکاری کا مظاہرہ کیا۔ ان اداکاروں میں اکثریت تھیٹر سے طویل وابستگی رکھتی ہے۔
اس ڈرامے کے لیے بنائے گئے سیٹ، اداکاروں کے ملبوسات، تھیٹر پر روشنی کے لوازمات اور دیگر پہلوؤں کا بھی خیال رکھا گیا۔ کہیں کہیں منظر تبدیل ہوتے وقت، خاموشی کا دورانیہ ذرا طویل محسوس ہوا، جس سے ناٹک کی کہانی کہیں کہیں بے ربط بھی ہوئی۔ البتہ اس تکنیکی باریکی کا خیال رکھا جاتا تو یہ کہانی ناظرین کو مزید اپنی گرفت میں لے سکتی تھی۔ پس پردہ موسیقی کی کمی محسوس کی گئی۔ اسی طرح کہانی کے مکالمات میں مزید وزن ڈالا جاسکتا تھا لیکن ایک مقید فضا میں اتنا لکھ کر بیان کردینا بھی کافی ہے۔
ایک بات حیرت کا باعث رہی کہ یہ ڈراما ان ذہنی طور پر بالیدہ اور باشعور ناظرین کے لیے لکھا گیا ہے جن کی اکثریت اردو زبان لکھتی، پڑھتی اور بولتی ہے۔ جبکہ ڈرامے کو پیش بھی اردو زبان میں کیا گیا۔ ڈراما دیکھنے والوں کی اکثریت بھی اردو زبان بولتے ہوئے پائی گئی لیکن اس ڈرامے کا تعارف نامہ (بروشر) انگریزی میں بنایا گیا۔ اس تخلیقی معذوری کی کوئی معقول وجہ سمجھ نہیں آئی۔
آخری بات
اس ناٹک کے ذریعے ہمارے سماج کی موجودہ ابتر صورتحال کے ذمے داروں کا تعین کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی۔ کم ازکم حال ہی میں ریلیز ہونے والی تمثیلی انداز کی فلم ’منی بیک گارنٹی‘ والا معاملہ اس ناٹک کے ساتھ نہیں ہوا کہ کہانی میں سے مرکزی مجرم اور کردار کو ہی تذکرے سے باہر کردیاجائے۔ اس ناٹک کے لکھاری اور ہدایت کار نے تخلیقی ذہانت سے کام لیتے ہوئے درست نقشہ کھینچا اور متعلقہ کرداروں کو منچ تک لے آئے۔ آج وہ کردار تمثیلی ہیں، کل کو مستقبل کا مورخ انہیں خود ہی ڈی کوڈ کرلے گا۔
اس کھیل کو متعدد بار اسٹیج کی زینت بننا چاہیے تاکہ تھیٹر کے ناظرین کی تخلیقی بلوغت میں مزید اضافہ ہوسکے۔ ہمارے عمدہ شاعر افتخار عارف کی اس مذکورہ غزل سے لیے گئے مصرعے کا حق ادا ہوگیا